محمد زبیر: پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیان کو منظرعام پر لانے والے صحافی مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے الزام میں گرفتار

محمد زبیر

،تصویر کا ذریعہMOHAMMAD ZUBAIR

،تصویر کا کیپشنمحمد زبیر پر مذہبی جزبات کو ٹھینس پہنچانے کا الزام ہے

انڈیا کی دارالحکومت دلی کی پولیس نے سرکردہ فیکٹ چیک نیوز ویب سائٹ ’آلٹ نیوز‘ کے شریک بانی محمد زبیر کو گرفتار کر لیا ہے۔

دلی پولیس کا کہنا ہے کہ محمد زبیر پر مذہبی جذبات مجروح کرنے کا الزام ہے۔

محمد زبیر انڈیا کے ایک سرکردہ صحافی ہیں اور ان کا نام فیک نیوز چیک کرنے اور عوام کے درمیان اس بارے میں بیداری پھیلانے کے لیے مشہور ہے۔

محمد زبیر گذشتہ دنوں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سابق ترجمان نوپور شرما کی جانب سے ایک ٹی وی میں پیغمبر اسلام کے بارے میں نازیبا بیانات کو منظر عام پر لانے اور ٹوئٹر کے ذریعے اس خبر کو عام کرنے کے بعد خبروں میں رہے۔

ان بیانات کو منظر عام پر لانے کے بعد یہ مطالبات شد و مد سے سامنے آئے تھے کہ زبیر کو گرفتار کیا جائے اور اُن پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے جائیں۔

یاد رہے کہ پیغمبر اسلام کے حوالے سے تبصرہ کرنے والی بے جے پی رہنما نوپور شرما نے دعویٰ کیا تھا کہ محمد زبیر کی جانب سے ٹویٹس کیے جانے کے بعد سے انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہی

اس سے قبل بھی متعدد بار محمد زبیر نے ایسے فیک مواد اور خبروں کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے جو نفرت پر مبنی تھا اور ایک خاص طبقے اور بیشتر اوقعات مسلمان مخالف تھا۔

یہ بھی پڑھیے

محمد زبیر کی گرفتاری کی خبر کے بعد آلٹ نیوز کے شریک بانی پرتیک سنہا نے ایک بیان میں لکھا ہے: ’زبیر کو آج دہلی سپیشل سیل میں تفتیش کی غرض سے بلایا گیا تھا۔ یہ کیس 2020 کا تھا اور اس میں زبیر نے ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری لے رکھی تھی۔ تاہم آج شام پونے سات بجے ہمیں آگاہ کیا گیا کہ انھیں کسی اور کیس میں گرفتار کر لیا گیا ہے، جس کے لیے انھیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا جو قانون کی رو سے دینا ضروری ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ان کی بارہا درخواستوں کے باوجود انھیں اس ایف آئی آر کی کاپی فراہم نہیں کی گئی جس کی بنیاد پر محمد زبیر کو گرفتار کیا گیا ہے۔

دوسری جانب دلی پولیس کے ڈی سی پی کے پی ایس ملہوتارا کے مطابق ریکارڈ پر محمد زبیر کے خلاف معقول ثبوت ہونے کی وجہ سے انھیں گرفتار کیا گیا ہے۔ اب ریمانڈ کے لیے انھیں ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

محمد زبیر کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر زبردست ردِعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔

کانگریس پارٹی کے رُکن ششی تھرور نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’انڈیا کی نئی فیکٹ چیکنگ سروسز خاص طور پر آلٹ نیوز ایک ایسے ماحول میں جو فیک خبروں اور غلط معلومات سے بھرا ہے، اس جھوٹ کو غلط ثابت کرتے ہیں، چاہے وہ غلط معلومات کسی نے بھی پھیلائی ہیں۔ محمد زبیر کی گرفتاری سچ پر حملہ ہے۔ ان کو فورا رہا کیا جانا چاہیے۔‘

ششی

،تصویر کا ذریعہ@ShashiTharoor

وہیں سرکردہ صحافی رانا ایوب نے لکھا کہ ’انڈین وزير اعظم ایمرجنسی کے دور کے خوف کے بارے میں بات کرتے ہیں جب انھوں نے خود ایمرجنسی جیسے حالات پیدا کیے ہوئے ہیں۔ محمد زبیر جو مستقل فیک نیوز کا بھانڈا پھوڑتے ہیں اور نفرت پر مبنی خبروں کا پردہ فاش کرتے ہیں، انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ ملک ان صحافیوں کو سزا دے رہا ہے جو رپورٹ کرتے ہیں اور جو اس کے زوال کے بارے میں لکھتے ہیں۔‘

ایوب

،تصویر کا ذریعہ@RanaAyyub

محمد زبیر کی گرفتاری کے فوراً بعد ٹوئٹر پر #Freezubair ٹریند کرنے لگا۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق ارکان کی طرف سے پیغمبر اسلام پر کیے گئے تبصروں سے متعلق سفارتی بحران پیدا ہونے کے بعد دائیں بازو کے ہندو گروہ امحمد زبیر کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

یاد رہے کہ محمد زبیر بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے کیے گئے اِن تبصروں کو سوشل میڈیا پر نمایاں کرنے والے ابتدائی لوگوں میں سے تھے۔

سابق ٹیلی کام انجینیئر محمد زبیر فیکٹ چیک ویب سائیٹ ’الٹ نیوز‘ کے شریک بانی ہیں اور کم از کم گذشتہ پانچ برسوں سے انڈیا میں جعلی خبروں یعنی فیک نیوز کو نمایاں کر رہے ہیں۔

بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے پیغمبر اسلام کے حوالے سے کیے گئے تبصرے لگ بھگ ایک ہفتے بعد سوشل میڈیا پر اس وقت وائرل ہوئے تھے جب محمد زبیر نے انھیں ٹویٹر اکاؤنٹ سے پوسٹ کیا اور تب سے ہندو دائیں بازو کے اراکین اُن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

نوپور شرما

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنمحمد زبیر گذشتہ دنوں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سابق ترجمان نوپور شرما کی جانب سے ایک ٹی وی میں پیغمبر اسلام کے بارے میں نازیبا بیانات کو منظر عام پر لانے اور ٹوئٹر کے ذریعے اس خبر کو عام کرنے کے بعد خبروں میں رہے

یہ پہلا موقع نہیں جب محمد زبیر کو نشانہ بنایا گیا ہو۔

رواں ماہ کے ابتدا میں ایک غیر معروف تنظیم راشٹریہ ہندو شیر سینا کے ایک رکن نے اُن کے خلاف ہندو جذبات کو مشتعل کرنے کا مقدمہ درج کروایا تھا۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ محمد زبیر نے ایک ٹویٹ میں ایسے ہندو مذہبی رہنماؤں کو ’نفرت پھیلانے والا‘ کہا تھا جنھوں نے حالیہ مہینوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دیے تھے۔

27 مئی 2022 کو کی گئی اس ٹویٹ میں محمد زبیر نے لکھا تھا کہ ’ہمیں یتی نرشنگھنند سرسوتی یا مہنت بجرنگ منی یا آنند سوروپ جیسے نفرت پھیلانے والوں کی کیا ضرورت ہے جو کہ کسی کمیونٹی یا مذہب کے خلاف بولنے کے لیے دھرم سنسد کا اہتمام کریں جب ہمارے پاس پہلے ہی ایسے اینکر موجود ہیں جو نیوز سٹوڈیو سے بہت بہتر کام کر سکتے ہیں۔‘

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انڈیا میں ان صحافیوں کے لیے اپنا کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے جو حکومت سے سوال پوچھتے ہیں۔

گذشتہ سال محمد زبیر، رانا ایوب، نیوز پورٹل دی وائر اور سوشل میڈیا پورٹل ٹویٹر ان افراد اور اداروں میں شامل تھے جن پر یو پی پولیس نے ’ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی‘ پیدا کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ زبیر سمیت دوسرے ملزمان نے ایک ویڈیو شیئر کی تھی جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک داڑھی والے بزرگ کو ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ تاہم پولیس نے مقدمہ میں دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک ذاتی معاملہ تھا۔