Svoboda | Graniru | BBC Russia | Golosameriki | Facebook

رسائی کے لنکس

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کا فوجی کیمپ پر حملہ، چار اہلکار ہلاک


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع راجوری میں ایک فوجی کیمپ پر عسکریت پسندوں کے حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔ جوابی کارروائی میں دو حملہ آوروں کو ہلاک کیے جانے کا دعویٰ کیا جا رہاہے۔

بھارتی فوج کی وائٹ نائٹ کور نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ عسکریت پسندوں نے جمعرات کی علی الصباح ضلع راجوری کے علاقے پرگال میں فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کیا۔

بھارتی فوج کے ترجمان کرنل دیویندر آنند نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ دو مبینہ دہشت گردوں نے رات کی تاریکی میں ضلعی صدر مقام راجوری سے 25 کلو میٹر دور پرگال کے مقام پر ایک فوجی کیمپ میں زبردستی گھسنے کی کوشش کی۔ لیکن جوں ہی وہ کیمپ کے ارد گرد بچھائی گئی خار دار تار کو عبور کرنے لگے تو سیکیورٹی اہلکاروں نے اُن پر فائر کھول دیا۔

کرنل دیویندر کے بقولدو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں بھارتی فوج کے تین اہلکار ہلاک ہوئے جب کہ ایک افسر سمیت پانچ زخمی ہو گئے جن میں سے ایک اہلکار جمعے کو دم توڑ گیا۔ ترجمان نے بتایا کہ جوابی فائرنگ میں دونوں حملہ آور بھی ہلاک ہو گئے۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس مکیش سنگھ نے بتایا کہ فوجی اہلکاروں اور حملہ آوروں کے درمیان اس وقت فائرنگ کا تبادلہ ہوا جب عسکریت پسندوں نے فوجی کیمپ پر حملے کی کوشش کی۔

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ فوجی کیمپ پر حملے کے پیچھے عسکریت پسند تنظیم 'لشکر طیبہ' کا ہاتھ ہے۔

بھارتی فوج نے عسکریت پسندوں کے اس حملے میں مارے گئے اہلکاروں کی شناخت صوبیدار راجندر پرساد ، رائفل مین منوج کمار اور رائفل مین لکشمنن ڈی کے طور پر کی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ جوابی کارروائی میں ہلاک کیے گئے عسکریت پسندوں کی شناخت کی جا رہی ہے۔

بھارتی فوج کا یہ بھی کہنا ہے کہ عسسکریت پسندوں کے زیرِ استعمال 47 بندوقیں، نو میگزین، 300 راؤنڈ، پانچ دستی بم برآمد کیے گئے ہیں۔

راجوری میں بھارتی فوج کے کیمپ پر ایسے موقع پر حملہ ہوا ہے جب بھارت میں آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کے سلسلے میں تقریبات کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

گزشتہ چار برس کے دوران جموں میں فوجی کیمپ پر ہونے والا یہ پہلا حملہ ہے۔ آخری مرتبہ فروری 2018 میں عسکریت پسندوں نے سنجوا کیمپ پر حملہ کیا تھا جس میں چھ فوجی ہلاک اور 14 زخمی ہوئے تھے۔ اس سے قبل 2016 میں اوڑی سیکٹر پر ہونے والے حملے میں 18 اہلکار مارے گئے تھے۔

ضلع راجوری اور جموں ریجن کے دیگر علاقوں کو عسکریت پسندوں سے پاک قرار دیا گیا تھا تاہم گزشتہ چھ ماہ کے دوران جموں میں تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔

ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار مکیش سنگھ نے صحافیوں کو بتایا کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) سمیت پولیس کی بھاری نفری بھی علاقے کی جانب روانہ کر دی گئیں جب کہ ایک قریبی فوجی بیس سے بھی کمک روانہ لر دی گئی۔

چار برس بعد جموں میں پہلا بڑا حملہ

بھارتی کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندو ں کی طرف سے اگرچہ مسلم اکثریتی وادیؐ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز مسلسل نشانےپر رہتی ہیں، تاہم ریاست کے نسبتاً پُرامن جموں خطے میں یہ گزشتہ چار سال کے دوراں کسی فوجی کیمپ پر کیا گیا پہلا بڑاحملہ ہے۔

آخری مرتبہ فروری 2018 میں عسکریت پسندوں نے سرمائی دارالحکومت جموں کے سنجوا علاقے میں بھارتی فوج کے ایک بڑے کیمپ پر حملہ کیا تھا جس میں چھ اہلکار ہلاک اور 14 زخمی ہو گئے تھے۔

تاہم رواں برس اپریل میں سنجوا ہی کے علاقے میں عسکریت پسندوں نے بھارت کے سینٹرل انڈسٹریل سیکیورٹی فورس (سی آئی ایس ایف) کی ایک پارٹی پر حملہ کر کے ایک ایک پولیس انسپکٹر کو ہلاک اور سات کو زخمی کر دیا تھا۔

سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں دونوں مشتبہ حملہ آور ہلاک ہوئے تھے اور حکام نے کہا تھا کہ ان دونوں کا تعلق کالعدم جیشِ محمد سے تھا۔

حملہ آور اوڑی جیسی کارروائی کرنا چاہتے تھے: حکام کا دعویٰ

بھارتی عہدے داروں نے دعویٰ کیا ہے کہ عسکریت پسند پرگال میں فوجی کیمپ کو نشانہ بنا کر اوڑی جیسی کارروائی دہرانا چاہتے تھے۔

خیال رہے کہ ستمبر 2016 میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب اوڑی میں بھارتی فوج کے کیمپ پر مشتبہ عسکریت پسندوں کے حملے میں 19 فوجی ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے ردِعمل میں بھارتی فوج نے پاکستانی کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا جسے پاکستان نے مسترد کر دیا تھا۔

بھارتی کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر کا پاکستان پر الزام

بھارت کےز یرِ انتطام کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے پرگال میں فوجی کیمپ پر کئے گئے حملے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان پر اس حملے میں ملوث ہونے کا شک ظاہر کیا ہے۔

پاکستان ماضی میں بھارتی حکام کی جانب سے ایسے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

  • یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG