پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازع بیان انڈیا اور اسلامی دنیا کے تعلقات کا ٹیسٹ کیس کیسے بنا؟

  • وکاس پانڈے
  • بی بی سی نیوز، نئی دلی
Prime Minister Narendra Modi shake hands with Crown Prince Of Saudi Arabia Mohammed Bin Salman Bin Abdulaziz Al-Saud prior to a meeting, at Hyderabad House, on February 20, 2019 in New Delhi, India.

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنانڈیا کے سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں

انڈیا کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو رہنماؤں کی طرف سے پیغبر اسلام سے متعلق متنازع بیانات کے بعد بڑھتے ہوئے غصے کو دیکھ کر انڈیا اسلامی دنیا میں اپنے دوست ممالک کو وضاحتیں دینے پر مجبور ہو گیا ہے۔

بی جے پی کی سرکاری ترجمان نوپور شرما نے ایک ٹی وی شو میں پیغمبر اسلام سے متعلق متنازع بیان دیا ہے جبکہ حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک اور رہنما نوین جندل نے، جو پارٹی کے میڈیا ونگ کے سربراہ بھی تھے، اس معاملے پر ٹویٹ کیا۔ نوپور شرما کے بیان نے خاص طور پر انڈیا میں اقلیتی کمیونٹی یعنی مسلمانوں میں غم و غصہ کو ہوا دی اور اس کے بعد ملک کی کچھ ریاستوں میں احتجاج بھی دیکھنے میں آیا۔

دونوں رہنماؤں نے اپنے بیانات پر معذرت کی ہے جبکہ بی جے پی نے نوپور شرما کی پارٹی رکنیت معطل کر دی ہے جبکہ نوین جندل کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔

بی جے پی نے کسی بھی مذہبی شخصیت کی توہین کی سختی سے مذمت کی ہے۔ اپنے ایک بیان میں پارٹی نے کہا ہے کہ بی جے پی ہر اس سوچ کے خلاف ہے جو کسی بھی فرقے یا مذہب کی بے توقیری کرتی ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بی جے پی ایسے لوگوں اور فلاسفی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی کے دونوں رہنماؤں کے بیانات ملک میں گذشتہ چند برسوں سے موجود گہری مذہبی تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پر بی جے پی کا ردعمل شاید اب کافی نہ ہو کیونکہ اب ملک کے اندورنی معاملے نے بین الاقوامی نوعیت اختیار کر لی ہے۔ کویت، قطر اور ایران نے اتوار کو انڈیا کے سفیروں کو بلا کر ان بیانات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا ہے۔

پیر کو سعودی عرب نے بھی ان بیانات کی مذمت کی ہے۔

اتوار کو اس معاملے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے قطر کی وزارت خارجہ نے دوحہ میں انڈیا کے سفیر دیپک متل کو طلب کر کے انڈیا سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔

قطر کی وزارت خارجہ کے مطابق اس طرح کے اسلام فوبیا پر مبنی ریمارکس کو بغیر سزا کے چھوڑ دینا، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور یہ مزید تعصب اور پسماندگی کا باعث بن سکتا ہے، جو تشدد اور نفرت کے ایک نئے سلسلے کو جنم دے گا۔

سعودی عرب نے اپنے بیان میں کچھ سخت الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی ’وزارت خارجہ نے انڈین بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمان کے بیانات کی مذمت کرتی ہے، جس میں پیغمبر اسلام کی توہین کی گئی ہے۔ اور یہ کہ سعودی عرب تمام مذاہب اور مذہبی شخصیات اور شعائر سمیت اسلام اور شعائر اسلام کے خلاف اس طرح کے تعصب کی مستقل حوصلہ شکنی کی پالیسی کا اعادہ کرتا ہے۔‘

Nupur Sharma, former BJP spokesperson

،تصویر کا ذریعہNupur Sharma/Twitter

،تصویر کا کیپشننوپور شرما نے ایک ٹی وی شو میں متنازع ریمارکس دیے

دوحہ میں انڈیا کے سفیر دیپک متل نے کہا کہ اس طرح کے عناصر کے ذاتی خیالات انڈیا کی حکومت کے نکتہ نظر کی ترجمانی نہیں کرتے۔ بی جے پی کے سینئیر رہنماؤں اور دیگر سفیروں نے بھی اس متنازع بیان کی مذمت کی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور حکومت کی طرف سے بھی اس معاملے پر بیان دینا چاہیے۔ ان کے مطابق ایسا نہ کرنے کی صورت میں انڈیا کے ان اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔

انڈیا کا بہت کچھ خطرے میں ہے

خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ساتھ انڈیا کی تجارت، جس میں کویت، قطر، سعودی عرب، بحرین، عمان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، سال 2020-21 میں 87 ارب ڈالر تک رہی۔ اس کے علاوہ انڈیا کے لاکھوں شہری ان ممالک میں رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں اور لاکھوں ڈالر کی ترسیلات زر وطن واپس بھیجتے ہیں۔

یہ خطہ انڈیا کی توانائی کی درآمدات کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سنہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ان خلیجی ممالک کا باقاعدہ دورہ کرتے رہے ہیں۔ نیو دہلی نے پہلے ہی متحدہ عرب امارات کے ساتھ ایک آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں اور ایک وسیع معاہدے کے لیے جی سی سی کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔

نریندر مودی نے سنہ 2018 میں ابوظہبی میں پہلے ہندو مندر کے سنگ بنیاد کی تقریب میں پرتپاک انداز میں شرکت کی تھی۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے اس اقدام کو انڈیا اور خطے کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی ایک مثال قرار دیا گیا تھا۔

جبکہ تہران کے ساتھ دلی کے تعلقات گذشتہ چند برسوں سے بہت اچھے رہے ہیں، یہ تنازعہ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے آنے والے انڈیا کے دورے پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

ماہرین نے کہا کہ یہ تنازعہ انڈیا کی حالیہ کامیابیوں کو ماند کر سکتا ہے۔

انڈیا کے سابق سفیر جتیندر ناتھ مشرا کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرف سے خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں حقیقی ثابت ہوئی ہیں اور ان تعلقات میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ ان کے مطابق انڈیا کے لیے ایک اور کامیابی کا زینہ یوکرین تنازعے میں بہتر انداز میں کردار ادا کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک ایسا بحران ہے جو سفارت کار چاہتے ہیں کہ نا ہی ہو تو بہتر ہے۔ ہم اپنے دوستوں کے حلقے کو بڑھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں، اور جب ایسا ہوتا ہے تو یہ کوئی اچھی پیشرفت نہیں ہوتی۔

عرب دنیا میں خدمات انجام دینے والے ایک اور سابق سفارت کار انیل تریگونیت نے کہا کہ انڈیا ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور صرف قیادت کی سطح پر مخلصانہ کوششیں ہی منفی اثرات کو روک سکتی ہیں۔

ان کے مطابق قانون کے تحت ذمہ داران کے خلاف مثالی کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے تاکہ ایسے سرکس عناصر اسے دہرانے اور سماجی افراتفری پیدا کرنے اور ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب نہ بنیں۔

دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کے اثرات کی سفارتی قیمت خطے میں انڈیا کے مفادات کو بہت نقصان پہنچا سکتی ہے۔

امریکہ کے ولسن سینٹر تھنک ٹینک میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ انڈین حکام اکثر دفاعی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں جب نئی دہلی کے قریبی دوستوں سمیت دیگر ممالک انڈیا کے اندرونی معاملات پر تنقید کرتے ہیں۔

لیکن اس معاملے میں، انڈیا کے سفارت کاروں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ معافی اور نقصان پر قابو پانے کی دیگر اقسام کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے تیزی سے کام کریں گے۔

Indian workers watch the openning of Dubai's international boat show from the 50th floor of the tower which is beign constructed behind the Dubai International Marine Club, 14 March 2006.

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنلاکھوں انڈین شہری خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں

عرب ممالک بھی اپنے ہی عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ٹھوس اقدام اٹھانا چاہتے ہیں۔ انڈیا پر تنقید کرنے والے ہیش ٹیگز ان ممالک میں ٹرینڈ کر رہے ہیں اور یہ واقعہ ان کے میڈیا میں ٹاپ سٹوری بن گیا ہے۔

ان ہیش ٹیگز میں سے کچھ نے انڈیا کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔

قطر اور کویت میں کچھ دکانوں کی جانب سے انڈیا مصنوعات کو ہٹانے کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

مائیکل کوگلمین کے مطابق یہ تعلق جی سی سی اور انڈیا دونوں کے لیے اہم ہے اور دونوں فریق خطرات کو کم کرنے پر غور کریں گے۔

ان کے خیال میں جہاں ایک طرف دلی کو اس طرح کے تزویراتی طور پر نازک خطے کی طرف سے اس ناراض ردعمل کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے، تو دوسری جانب انڈیا کی اپنی خاص اہمیت بھی اسے مزید نقصان سے بچاتی ہے۔

اپنے اقتصادی مفادات کی وجہ سے، خلیجی ریاستوں کو اپنی توانائی کی درآمد جاری رکھنے کے لیے انڈیا کی ضرورت ہے۔ انھیں انڈین شہریوں کی ضرورت ہے جو وہاں رہیں اور کام جاری رکھیں۔ مجموعی طور پر، انھیں انڈیا کے ساتھ کاروبار کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس بات کی کوئی حد ہوسکتی ہیں کہ یہ ممالک ان مسلم مخالف تبصروں کا جواب دینے میں کتنا آگے جا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

مذہبی تقسیم میں اضافہ

ناقدین کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انڈیا میں مذہبی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ چند ہفتوں میں خاص طور پر اس وقت کشیدگی پیدا ہوئی جب کچھ ہندو گروپ وارانسی (پرانا نام بنارس) کی ایک مقامی عدالت میں صدیوں پرانی مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت طلب کرنے گئے۔

ان ہندؤوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک منہدم مندر کے کھنڈرات پر بنائی گئی مسجد ہے۔

ٹی وی چینلز نے اشتعال انگیز بحث دیکھنے میں آئی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر بے تحاشا نفرت دیکھی ہے۔

دائیں بازو کی تنظیموں سے وابستہ بہت سے لوگ اکثر ٹی وی شوز میں متنازع بیانات دیتے ہیں، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ نور پور شرما کوئی ایسی ذاتی حیثیت میں بیان نہیں دیا ہے۔

ان کے مطابق وہ پارٹی کی ایک سرکاری ترجمان تھیں، جنھیں بی جے پی کے خیالات کی نمائندگی کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ اس تنازعہ پر بین الاقوامی سطح پر ہونے والے ردعمل انڈیا کے لیے جاگ جانے کا موقع ہونا چاہیے۔

مائیکل کوگلمین کے مطابق انڈیا یہ سیکھ رہا ہے کہ جب ملک کی بڑھتی ہوئی زہریلی سیاست کی بات آتی ہے تو جو کچھ انڈیا میں ہوتا ہے وہ اکثر انڈیا کا ہی معاملہ بن کر نہیں رہتا بلکہ ایسا بیرون ملک خفگی کا بھی سبب بن جاتا ہے۔

ان کے مطابق جیسے جیسے انڈیا کا عالمی اثر بڑھتا جاتا ہے اور بیرون ملک اس کی سفارتی اور اقتصادی شراکت داری مضبوط ہوتی جاتی ہے، اس وقت اس کی ملکی سیاست اور بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔