Svoboda | Graniru | BBC Russia | Golosameriki | Facebook

رسائی کے لنکس

ٹی ٹی پی کمانڈر عمر خراسانی کی ہلاکت، امن مذاکرات کے لیے دھچکا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اہم کمانڈر عبدالولی مہمند المعروف عمر خالد خراسانی کی افغانستان میں ایک حملے میں ہلاکت کے بعد حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جاری مذاکرات کے مستقبل پر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔

عمر خالد خراسانی اتوار کو ٹی ٹی پی کا گڑھ سمجھے جانے والے افغان صوبے پکتیکا میں ایک پراسرار بارودی دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

عمر خراسانی کی ہلاکت کے بعد بعض ماہرین پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جاری مذاکرات کے حوالے سے مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔خیال رہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور حکومتِ پاکستان نے جون میں غیر معینہ مدت تک کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔

لیکن خراسانی کی ہلاکت کے اگلے ہی روز پیر کو شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے ایک قافلے پر خود کش حملے میں چار سیکیورٹی اہلکاروں ہلاک ہو گئے تھے۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں شامل ٹیم کے رُکن سینیٹر ہلال الرحمان نے عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کو امن مذاکرات کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔

عمر خالد خراسانی ایک سخت گیر کمانڈر کے طور پر جانے جاتے تھے اور ان کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ ہمیشہ سے حکومت اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات کے مخالف تھے۔ تاہم ہلال الرحمان کے مطابق اب وہ کافی بدل گئے تھے۔

خالد خراسانی کی ہلاکت کے بعد اپنی ٹویٹ میں سینیٹر ہلال الرحمان کا کہنا تھا کہ امن مذاکرات کے دوران اُن کی کابل میں خالد خراسانی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اُن کے بقول خالد خراسانی امن معاہدے کے لیے پرجوش اور پاکستان واپس آنا چاہتے تھے۔ لیکن اُن کی ہلاکت نے امن عمل کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔


یاد رہے کہ عمر خالد خراسانی کے ساتھ اُن کے داماد علی حسان مہمند، ٹی ٹی پی کے دو سابق کمانڈر مفتی حسن سواتی اور حافظ دولت خان بھی مارے گئے تھے۔

مفتی حسن اور دولت خان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے 2014 میں اپنی راہیں کالعدم تحریک سے جدا کی تھیں اور شدت پسند تنظیم داعش کے ساتھ منسلک ہو گئے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے داعش کو خیر باد کہہ دیا تھا تاہم اُن کے دوبارہ ٹی ٹی پی میں شمولیت کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔

افغان طالبان داعش کو اپنے لیے سنگین خطرہ سمجھتے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق یہ بھی ہو سکتا ہے کہ افغان طالبان کے کسی گروہ نے داعش سے تعلق کے شبہے میں اُنہیں نشانہ بنایا ہو۔

شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان ایسا نہیں کر سکتے کیوں کہ اس سے ملک کے اندر اُن کے لیے دیگر خطرات جنم لے سکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ افغان طالبان کے اہم رہنماؤں نے سوشل میڈیا پر خراسانی کی موت پر شدید دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ جو خراسانی اور افغان طالبان کے قریبی تعلق کی نشان دہی ہے۔

ہاد رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان کے اندر متعدد ٹی ٹی پی رہنما حملوں کی زد میں آ چکے ہیں۔


تا حال کسی گروہ نے عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی ٹی ٹی پی نے ان کی ہلاکت کے حوالے سے کسی کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ تاہم عبدالسید کے مطابق اہم سوال پاکستانی اداروں پر اٹھتا ہے کیونکہ ان پر افغانستان کے اندر کئی برسوں سے ریاست مخالف پاکستانی کمانڈروں بشمول تحریکِ طالبان کے افراد کو یوں ہی پراسرار کارروائیوں میں ہدف بنانے کے الزامات لگتے ہیں۔

عبدالسید کے مطابق اگر دیکھا جائے تو خراسانی تحریکِ طالبان میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے اور اُن کا ریاستِ پاکستان کے حوالے سے مؤقف سخت تھا۔

رواں سال کے آغاز ہی میں ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان خالد بلتی کی ہلاکت کا واقعہ سامنے آیا جب کہ اس سے قبل باجوڑ سے تعلق رکھنے والی کالعدم تحریک کے رہنما مولوی فقیر محمد کے ٹھکانے کو افغان صوبہ کنڑ میں نشانہ بنایا گیا جس میں وہ محفوظ رہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ اور آرمی پبلک اسکول کے ماسٹر مائنڈ عمر منصور کو بھی افغانستان میں نشانہ بنایا گیا۔

عمر خالد خراسانی ٹی ٹی پی کے ان چند سرکردہ افراد میں شامل تھے جن پر امریکی حکومت نے تین لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا۔

شدت پسندی کے موضوع پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی داؤد خٹک کا کہنا ہے کہ عمر خالد خراسانی کا اپنے دو سینئر کمانڈروں کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کے گڑ مارغہ میں مارا جانا سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں عمر خالد خراسانی مذاکرات کے حق میں نہیں تھے۔ تاہم تنظیمی ڈھانچے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پوری قوت کے ساتھ اس کی مخالفت نہیں کر سکتے تھے۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بعد مفتی نور ولی محسود کی مشکلات میں بھی مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ کیونکہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھتے ہیں تو عمر خالد خراسانی کے ساتھ ہمدردیاں رکھنے والے کمانڈرز کے دلوں میں شبہات جنم لیں گے۔

داؤد خٹک کے مطابق مفتی نور ولی نے پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ حقانی گروپ کے دباؤ کے پیشِ نظر کیا اور وہ یکطرفہ طور پر مذاکرات کے خاتمے کا اعلان نہیں کر سکتے ہیں۔

اُنہوں نے واضح کیا کہ پاکستانی حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ بظاہر تمام شرائط مان چکی ہے اور مفتی نور ولی خود بھی واپس اپنے علاقے میں آنا چاہتے ہیں۔ اور یہی کچھ حقانی نیٹ ورک بھی چاہتا ہے کیوں کہ وہ اپنے علاقوں میں اسڑٹیجک ڈیپتھ چاہتے ہیں۔

اُن کے بقول حقانی نیٹ ورک کی یہ خواہش ہو گی کہ مستقبل میں اسی اسٹرٹیجک ڈیپتھ کو اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کر سکیں جیسا کہ وہ پہلے کیا کرتے تھے۔

XS
SM
MD
LG