صدر بائیڈن نے اس ملاقات کے موقع پر کہا کہ ’’محض چند نسلیں پہلے ہماری قومیں ایک تباہ کن تنازعہ کا سامنا کر رہی تھیں۔ یہ بہت آسان تھا کہ ہم ایک دوسرے کی مخالفت ہی کرتے رہتے۔ لیکن اس کے بجائے ہم نے بہت بہتر انتخاب کیا اور ہم قریبی دوست بن گئے۔
سفیر ووڈ نے کہا کہ ایران بین الاقوامی سطح پر عائد قانونی ذمہ داریوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا ایک طویل ریکارڈ رکھتا ہے اور اس کے لیے خاص طور پر پاسداران انقلاب کور سے کام لیے جاتے ہیں۔
روس اور چین کے مؤقف کے برعکس امریکہ غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کرتا ہے۔ جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا کہ انسانی صورتِ حال کو مستحکم کرنے اور بہتر بنانے اور معصوم شہریوں کی حفاظت کے لیے فوری جنگ بندی ضروری ہے۔
یہ حکومت کی طرف سے فضائی حملوں، گولہ باری اور آتش زنی کے علاوہ ہے جن میں تین سال قبل فوج کے غیر قانونی طور پر اقتدار سنبھالنے کے بعد سے گھروں، اسکولوں، صحت کی سہولیات اور عبادت گاہیں تباہ ہو گئی ہیں۔
چھ ماہ کی اس جنگ کے دوران اب تک اسرائیل میں تقریباً 1200 اسرائیلی اور غیر ملکی شہریوں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور غزہ میں 32 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور 75 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’آئیے واضح طور پر یہ سمجھ لیں کہ امن اور سلامتی کو درپیش کوئی بھی خطرہ بچوں کے لیے خطرہ ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ میں خصوصی سیاسی امور کے متبادل امریکی نمائندے سفیر رابرٹ ووڈ نے کہا کہ ’’جب ہم اس بمباری کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کرتے ہیں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ ایران اور اس کے پراکسی اور شراکت دار گروپوں کو خطے میں کشیدگی میں اضافے سے بچنے کی ضرورت ہے۔
معاون وزیر پیاٹ نے کہا کہ جی سیون پلس توانائی کے شعبے میں امریکہ اور اس کے شراکت دار ’’فوری امداد کو متحرک کرنے کی کوشش کریں گے جیسا کہ ہم اکتوبر 22 کے بعد سے کر رہے ہیں۔
قومی سلامتی کے کمیونی کیشن ایڈوائزر جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت میں متعدد دوطرفہ علاقائی اور عالمی مسائل پر تبادلۂ خیال ہوا۔ ان میں تعاون اور اختلافات کے امور پر جامع اور تعمیری گفتگو بھی شامل تھی۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ’’ہم ان لاکھوں سپاہیوں، ملاحوں اور ہوا بازوں کے شکرگزار ہیں جنہوں نے ایک دوسرے کے دفاع کے لیے ہمت اور جانیں قربان کرنے کی آمادگی کے ساتھ ہمارے مقدس عزم کو قائم رکھا۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ’’اس کا آغاز آمرانہ حکومتوں کی طرف سے جمہوریت میں عدم اعتماد پیدا کرنے، ہمارے اداروں کو کمزور کرنے، سرحدوں کے پار پہنچنے اور ہمارے ملکوں میں لوگوں کو نشانہ بنانے کی کوششوں کے خلاف مقابلہ کرنے سے ہوتا ہے۔
سفیر رچرڈ نے کہا کہ گزشتہ کچھ برسوں میں یہ خطرات بڑھ گئے ہیں۔یہاں تک کہ ان میں امریکی قومی سلامتی کےایک سابق مشیر کو نشانہ بنانے والی سازش بھی شامل ہے۔
Load more