Svoboda | Graniru | BBC Russia | Golosameriki | Facebook

رسائی کے لنکس

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کا انٹیلی جینس اداروں کی مبینہ مداخلت کے خلاف جوڈیشل کونسل کو خط


پاکستان سپریم کورٹ۔ فائل فوٹو
پاکستان سپریم کورٹ۔ فائل فوٹو

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے اعلیٰ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مبینہ مداخلت اور ججز پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔

یہ خط اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا ہے،خط کی کاپی سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ارکان کو بھجوائی گئی ہے۔

اس خط کے حوالے سے اب تک پاکستان فوج یا حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس خط کی حمایت کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

خط میں کیا کہا گیا ہے؟

خط لکھنے والے ججز نے اپنے اوپر دباؤ کی کوششوں سے متعلق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو 2023 اور 2024 میں لکھے خطوط بھی شامل کیے ہیں۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ججز کے ساتھ پیش آنے والے مختلف واقعات بھی خط میں شامل ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ عمران خان کے خلاف ٹیریان وائٹ کیس سے ججز کی رائے میں اختلاف کا آغاز ہوا. چیف جسٹس عامر فاروق نے ٹیریان وائٹ کیس قابلِ سماعت قرار دیا جبکہ کیس ناقابلِ سماعت قرار دینے والے ججوں پر آئی ایس آئی کے آپریٹو کی جانب سے رشتہ داروں اور دوستوں کے ذریعے بےحد پریشر ڈالا گیا۔

یہ معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور پھر اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھا گیا تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ انہوں نے آئی ایس آئی کے ڈی جی سی سے بات کر لی ہے آئندہ ایسا نہیں ہو گا لیکن پھر بھی یہ سلسلہ رک نہیں سکا"

خط میں کہا گیا ہے کہ خفیہ اداروں کی جانب سے ججز پر مسلسل دباؤ کا معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے اٹھایا، جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ڈی جی سی سے ملاقات کی اور انہوں نے آئندہ ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی ہے تاہم آئی ایس آئی کی جانب سے مداخلت جاری رہی۔

چھ ججز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ مئی 2023 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کے بہنوئی کو یونیفارم پہنے لوگوں نے اغواء کیا، تشدد کیا، الیکٹرک شاکس دیے ویڈیو بیان ریکارڈ کرانے کیلئے مجبور کیا. جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے اور میڈیا پر مہم چلوا کر استعفیٰ دینے کیلئے دباؤ ڈالا گیا۔

‏خط میں تحریر ہے کہ ایک جج کے بیڈ روم سے خفیہ کیمرہ ملا ہے جس میں جج کی فیملی کی ویڈیوز ریکارڈ کی گئی تھیں، ویڈیوز دوسرے ججز کے سامنے بھی چلائی گئیں، لیکن اب تک اس پر کارروائی نہیں کی گئی۔

ججز کی طرف سے انٹیلی جنس ادارے کے نمائندوں کی عدالتی امور میں مداخلت پر جوڈیشل کنونشن بلانے کی تجویز دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کنونشن سے پتہ چلے گا کہ کیا دیگر ہائیکورٹ کے ججز کو بھی اس صورتحال کا سامنا ہے؟

خط میں کہا گیا کہ خفیہ اداروں کی طرف سے عدالتی امور میں مداخلت کوئی نیا واقعہ نہیں ہے اور ماضی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ہی جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو انٹیلی جنس ادارے کی مداخلت کا بتانے پر 11 اکتوبر 2018 کوعہدے سے برطرف کیا گیا، موجودہ سپریم کورٹ نے 22 مارچ کے فیصلے میں جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو غلط قرار دیا اور انہیں ریٹائرڈ جج کہا ہے۔

خط میں کہا گیا کہ جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ان کے عائد کردہ الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں، ہم جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے موقف کی مکمل حمائت کرتے ہیں، اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو انڈرمائن کرنے والے کون تھے؟ ان کی معاونت کس نے کی؟ سب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نا جا سکے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے کے حوالے سے ججز نے کہا کہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔

خط پر ردعمل

اس خط کے حوالے سے اب تک حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خفیہ اداروں کی طرف سے پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کا بھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ البتہ ماضی میں ایسے الزامات پر آئی ایس آئی سمیت عدلیہ میں مداخلت کے تمام تر الزامات کی نفی کی جاتی رہی ہے اور ایسے تمام الزامات کو جھوٹ قرار دیا جاتا رہا ہے۔

اس خط کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کے ججز کے مراسلے نے خفیہ ایجنسیوں اور ریاستی اداروں کی غیرقانونی اور غیرآئینی سرگرمیوں کے حوالے سے بانی چیئرمین عمران خان اور تحریک انصاف کے مؤقف پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما سعد رفیق نے بھی سماجی رابطے کی سائیٹ ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ اکتوبر 2018 میں دو معزز جج صاحبان نے ہم بھائیوں کو ضمانت دینے کے بجائے ہمارا تمسخر اڑایا، حکم ضمانت نہ دینے کا تھا،تذلیل اضافی کارروائی تھی، سنا ہے اب ضمیر جاگ گئے ہیں۔

خط کے جواب میں ججز پر جوابی الزامات

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی طرف سے خفیہ اداروں پر الزام کے جواب میں سوشل میڈیا پر انہی ججز کے خلاف الزامات بھی عائد کیے جارہے ہیں ۔

خط لکھنے والے ججز میں شامل ایک جج جسٹس محسن اختر کیانی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف اکاؤنٹس سے ان کے خلاف ریفرنس اور دستاویزات شائع کی جارہی ہیں جن میں ان پر مالی کرپشن سمیت کئی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

ماضی میں بھی اگرچہ خفیہ اداروں پر مداخلت کے الزامات عائد کیے گئے اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے راولپنڈی بار سے خطاب میں خفیہ اداروں پر الزامات عائد کیے لیکن پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ ایک ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے علاوہ باقی تمام ججز نے خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت پر سوال اٹھایا ہو۔

فورم

XS
SM
MD
LG