Svoboda | Graniru | BBC Russia | Golosameriki | Facebook

رسائی کے لنکس

اُردن نے ایران کے اسرائیل پر حملے میں ڈرون کیوں تباہ کیے؟


اردن کے بادشاہ عبد اللہ الثانی بن الحسین غزہ میں اسرائیل کی کارروائی کے ناقد رہے ہیں۔
اردن کے بادشاہ عبد اللہ الثانی بن الحسین غزہ میں اسرائیل کی کارروائی کے ناقد رہے ہیں۔

  • اردن ان عرب ممالک میں شامل ہے جس نے اسرائیل کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا ہے۔
  • غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں پر اردن شدید تنقید کرتا آیا ہے اور جنگ بندی پر بھی زور دیتا رہا ہے۔
  • اسرائیل پر ایران کے حملے کو ناکام بنانے کے لیے اردن کے اقدامات پر اسرائیل میں بھی پذیرائی اور حیرت کا ملا جلا ردِ عمل دیکھا گیا ہے۔

اسرائیل پر حماس کے اکتوبر 2023 میں حملے کے بعد اردن غزہ میں اسرائیلی فورسز کی کارروائی کا ناقد رہا ہے اور ان پر جنگی جرائم کرنے کا الزام بھی عائد کر چکا ہے۔ تاہم ایران کے اسرائیل کے خلاف ڈرون اور میزائل حملے کو ناکام بنانے میں اردن نے اہم کردار ادا کیا۔

اردن کے فرماں روا عبد اللہ الثانی بن الحسین غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے مسلسل اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے زور دیتے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے ایک بار فرانس اور مصر کے صدور کے ساتھ مل کر اسرائیل سے جنگ روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اردن نے اتوار کو دعویٰ کیا تھا کہ اس کی فضائیہ نے اپنی فضائی حدود سے گزرنے والے درجنوں ایرانی ڈرون مار گرائے تھے۔ اس کے علاوہ اردن نے فوج کو بھی ہائی الرٹ پر رکھنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

عالمی میڈیا کے مطابق اردن کی جانب سے ایرانی حملوں کو ناکام بنانے میں کردار ادا کرنے پر اسرائیل میں پذیرائی اور حیرت کا ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔

ایران نے اردن کو اسرائیل کے ساتھ ‘تعاون‘ کرنے کی صورت میں حملہ کرنے کے دھمکی بھی دی تھی جب کہ بعض مسلم ممالک میں اردن کے شاہی خاندان پر تنقید کی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے اردن میں تواتر کے ساتھ احتجاج ہوتا رہا ہے اور حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا ہے جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

موجودہ صورتِ حال میں اردن کے ردِ عمل کو سمجھنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات کی تاریخ سمجھنا ضروری ہے۔

اسرائیل اردن تعلقات کا پس منظر

اردن نے 1948 میں اسرائیل کے خلاف ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اس جنگ کے بعد اردن نے نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔

اس کے بعد 1967 کی چھ روزہ جنگ میں ان علاقوں کا کنٹرول اسرائیل نے دوبارہ حاصل کر لیا تھا۔ تاہم اردن 1988 میں ان علاقوں پر اپنے دعوے سے دست بردار ہونے تک یہاں بعض انتظامی امور انجام دیتا رہا۔

اسرائیل اور اردن کے درمیان 1994 میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے سرحدوں کے تعین سے متعلق تمام مسائل حل کر لیے تھے۔

اس معاہدے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور سیکیورٹی تعلقات قائم ہوئے۔

اسرائیل کی اردن کے ساتھ 482 کلومیٹر طویل سرحد ہے جسے مغربی کنارے کی ملکیت کا فیصلہ نہ ہونے کے باوجود اسرائیل کی محفوظ ترین سرحد تصور کیا جاتا ہے۔

اس سرحد پر دونوں ممالک کے درمیان تین گزرگاہیں ہیں۔ ایلن بی برج یا شاہ حسین پل مغربی کنارے کے رہائشیوں کے لیے وہ واحد سرحدی راستہ ہے جو اسرائیل کی حدود سے باہر ہے۔

مغربی کنارے میں آباد فلسطینی غیر ملکی سفر کے لیے اسی کراسنگ کو استعمال کرتے ہیں۔

اسرائیل کے بارے میں رائے عامہ

سال 1948 میں ہونے والی پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بڑی تعداد میں فلسطینی اردن منتقل ہوئے تھے۔ اس وقت اردن کی آبادی میں 50 سے 60 فی صد افراد کا تعلق نسلی طور پر فلسطینی علاقوں سے اردن منتقل ہونے والوں سے تھا۔

اسے بھی اردن میں عوامی سطح پر غزہ میں اسرائیل کی کارروائی کی مخالفت کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔

امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے مطابق اردن کو ملک کے اندر بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے خاص طور پر نوجوانوں میں حکومت کے خلاف پہلے ہی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ غزہ کی صورتِ حال نے اس غصے کو مزید بڑھا دیا ہے۔

اسی بڑھتے ہوئے غم و غصے کی وجہ سے حکومت نے بھی اسرائیل کے خلاف اپنی تنقید میں بتدریج اضافہ کیا تھا۔

تاہم موجودہ حالات میں اسرائیل پر ایران کا حملہ ناکام بنانے کے لیے اردن کی کارروائی سے عوامی سطح پر اسے ردِ عمل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اردن کی کارروائی کے اسباب کیا ہیں؟

مبصرین کے نزدیک اردن کے اقدام کے کئی داخلی اور خارجی اسباب ہیں۔ تاہم اردن کی حکومت کا مؤقف ہے کہ اس کی فضائی حدود سے گزرنے والے میزائل یا فضا سے زمین پر گرتی ہوئی شے اس کے لیے خطرناک ہو سکتی تھی۔ اس لیے ہفتے اور اتوار کی درمیان شب فضائی حدود میں ڈرونز کو گرایا گیا۔

اردن کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ ايمن الصفدی نے اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ واضح کرنا چاہتے ہیں ڈرون چاہے اسرائیل کی جانب سے آئے یا ایران کی جانب سے یا کسی بھی طرف سے آئیں۔ ہمارا ردِ عمل یکساں ہو گا۔

برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق ممکنہ طور پر اردن نے امریکہ کی درخواست پر اسرائیل کے خلاف ایران کے ڈرونز کو ناکام بنایا ہے۔

اردن کو خطے میں امریکہ کے کلیدی اتحادیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

امریکہ کے سینکڑوں اہل کار اردن کی فورسز کو تربیت فراہم کرتے رہے ہیں اور سال بھر مختلف مشقوں کی نگرانی کرتے ہیں۔

شام کے ساتھ اردن کی سرحد پر التنف فوجی اڈے کے پاس ٹاور 22 بھی قائم ہے جہاں قلیل تعداد میں امریکی اہل کار موجود ہیں۔

تنف کا فوجی اڈہ شام سے آنے والے داعش کے حملہ آوروں اور ایران کے حامی عسکری گروہوں کو روکنے کے لیے امریکی حکمتِ عملی میں اہمیت کا حامل ہے۔

رواں برس جنوری میں اسی ٹاور 22 پر ڈرون حملہ کیا گیا تھا جس میں تین فوجی اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔ امریکہ نے ایران نواز عراقی ملیشیا کتائب حزب اللہ کو اس کے لیے ذمے دار قرار دیا تھا۔

امریکہ نے اردن کو 1996 میں اپنے غیر نیٹو بڑے اتحادیوں میں بھی شامل کیا تھا۔

امریکہ نے اردن کو دفاعی ضروریات کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی مدد فراہم کی ہے۔

امریکہ کی کوششوں سے اردن میں کوالیفائیڈ انڈسٹریل زونز قائم ہوئے ہیں جہاں قائم ہونے والی کمپنیوں میں اسرائیل کا بھی حصہ ہے۔

ان زونز میں قائم کمپنیوں سے تیار ہونے والی مصنوعات کو بغیر کسی ڈیوٹی کے امریکہ کو برآمد کیا جاتا ہے اور ان صنعتوں سے اردن میں 36 ہزار روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں جو ایک کروڑ سے زائد آبادی والے ملک کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک میں بے روزگاری کی شرح 22 فی صد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے حالیہ ہفتوں میں جو مؤقف اختیار کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غزہ جنگ کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں خطے میں لڑائی اور کشیدگی کو پھیلنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں اسرائیل پر حملے کے لیے بھیجے گئے ایران کے ڈرونز کو گرا کر اردن نے امریکہ کی اسی حکمتِ عملی کا ساتھ دیا ہے۔

ایرانی ڈرونز گرا کر اردن نے دنیا کو حیران ضروری کیا ہے۔ اردن کے اس اقدام کو اسرائیل میں سراہا جا رہا ہے جب کہ عرب ممالک میں سوشل میڈیا پر اردن کے شاہی خاندان کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG