Svoboda | Graniru | BBC Russia | Golosameriki | Facebook

رسائی کے لنکس

عمران خان کا نیب ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان


پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور ہونے والی قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس میں ترمیم کو رواں ہفتے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

منگل کو ایک آن لائن پریس کانفرنس میں عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت نے نیب کے قوانین میں جو ترامیم کی ہیں, پی ٹی آئی اسے رواں ہفتے ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔

پارلیمان سے نیب قانون میں ترامیم کی منظوری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک سے مذاق کیا گیا ہے اور ملک کی توہین ہوئی ہے۔ امید ہے کہ عدالتیں اس معاملے کا نوٹس لیں گی۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کی عدالتیں آزاد ہیں۔

ترامیم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی قانون کسی مخصوص شخص کے لیے نہیں بنایا گیا ایسا پہلی بار ہو رہا ہے۔ نئی ترامیم سے آصف زرداری، نواز شریف، مریم نواز سمیت تمام افراد بچ جائیں گے۔

قانون سازی کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ سیکشن 14 میں ترمیم کی گئی کہ اگر کسی جعلی اکاؤنٹ میں کوئی پیسہ آ گیا ہے تو جو پیسہ اس وقت اکاؤنٹ میں موجود ہوگا، صرف اس کے حوالے سے تفتیش ہوگی۔ اس سےقبل منتقل کی گئی رقم پر سوال نہیں ہوگا۔ یعنی اگر سو روپے اکاؤنٹ میں رہ گئے ہیں اور باقی ملک سے باہر بھیج دیے گئے ہیں، تو بس اسی سو روپے پر بات ہو گی۔ اور یہ بھی نیب کو ثابت کرنا ہوگا کہ پیسہ جائز نہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں قانون ہے کہ عوامی نمائندوں کو بتانا ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے اثاثے کیسے بنائے۔ اب پاکستان میں قانون بنا دیا گیا ہے کہ آمدن سے زائد اثاثوں کے حوالے سے اداروں کو بتانا ہوگا کہ زائد اثاثے کس طرح ناجائز ذرائع سے بنائے گئے جب کہ یہ تو اثاثے رکھنے والے کو بتانا ہوتا ہے کہ وہ اثاثے کیسے بنے۔

سابق وزیرِ اعظم کے مطابق منی لانڈرنگ کا معاملہ اب نیب سے لے لیا گیا اور ایف آئی اے کو دے دیا گیا ہے جب کہ ایف آئی اے وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہے اور وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ ہیں تو کیا وہ نواز شریف یا آصف زرداری کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے؟

بے نامی اثاثہ جات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایسے اثاثہ جات پر اب کوئی یہ سوال نہیں کر سکتا کہ رشتے داروں کے نام اثاثہ جات کیسے بنے۔

رواں ماہ کے آغاز میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں نیب ترمیمی بل منظور کیا گیا تھا۔

نیب قوانین میں ترامیم کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ یہ ملک پر بم باری سے بھی بڑا ظلم ہوا ہے۔ ان قوانین سے پاکستان کا 1100 ارب روپیہ ہضم کیا جائے گا۔ یہ رقم پاکستان آنی تھی۔

اتحادی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے وزرا تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ مہنگائی کم کرنے نہیں آئے بلکہ وہ اس لیے آئے ہیں کہ ایسے اقدامات کر سکیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت نےانہیں این آر او نہیں دیا تھا اس حوالےسے مستقل بلیک میل کیا جاتا رہا۔

اپنی حکومت کے خاتمے اور موجودہ حکومت کے قیام کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ جن لوگوں نے اس حکومت کو ملک پر مسلط کیا اور جو جو لوگ اندرونی یا بیرونی سازش کا حصہ بنے، تاریخ ان کو معاف نہیں کرے گی۔

واضح رہے کہ صدر عارف علوی نے بھی قومی احتساب بیورو (نیب) کے ترمیمی آرڈیننس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

نیب آرڈیننس پر دستخط نہ کرنے سے متعلق ایوانِ صدر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ بدقسمتی سے نیب کے قوانین میں خامیاں موجود تھیں۔ اس قانون کا سیاسی ضروریات کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

آرٹیکل 75 کے مطابق صدرِ مملکت پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو صرف ایک مرتبہ ہی واپس بھجوا سکتے ہیں جس کے بعد اگر یہ قوانین پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پاس کر لیے جائیں تو اس کے بعد 10 دن کے اندر صدر کو ان پر دستخط کرنے ہوتے ہیں۔

صدر کی جانب سے نیب کے ترمیمی آرڈیننس پر دستخط نہ کرنے کے باوجود یہ قانون بن جائے گا کیوں کہ جمعرات9 جون کو یہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظور کیا جا چکا ہے۔ آئین کے مطابق 10 دن کے اندر یہ بل نافذ العمل ہوجائیں گے۔ تاہم صدر عارف علوی ان بلوں پر دستخط نہ کرکے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں بننے والی اتحادی حکومت سابق وزیرِ اعظم کی نیب قوانین میں ترامیم سے متعلق الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

اتحادی حکومت کے وزرا کا یہ مؤقف رہا ہے کہ نیب قوانین میں ترامیم انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔

XS
SM
MD
LG