Svoboda | Graniru | BBC Russia | Golosameriki | Facebook

رسائی کے لنکس

بھارت: بوہرا کمیونٹی میں عورتوں کے ختنہ کی روایت، انسانی حقوق کے کارکن آواز بلند کرنے لگے


اس روایت پر زیادہ تر داؤدی بوہرا فرقے میں عمل کیا جاتا ہے۔ فائل فوٹو
اس روایت پر زیادہ تر داؤدی بوہرا فرقے میں عمل کیا جاتا ہے۔ فائل فوٹو

دنیا بھر میں عورتوں کے ختنے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کی اشاعت کے بعد بھارت میں مسلمان بوہری برادری کی جانب توجہ مبذول ہوئی ہے۔

یونیسیف نے جمعے کو ایسے 31 ممالک سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے جہاں اب بھی عورتوں کے ختنہ کی روایت پر عمل ہوتا ہے۔ تاہم اس فہرست میں بھارت شامل نہیں ہے۔ لیکن بھارت میں عورتوں کا ختنہ کرنے کی روایت پر بہت رازداری سے عمل کیا جاتا ہے اور اب اس معاملے پر بات چیت ہونے لگی ہے۔

فیمیل جینیٹل میٹیلیشن یعنی عورتوں کے ختنہ کی روایت پر زیادہ تر داؤدی بوہرا فرقے میں عمل کیا جاتا ہے۔ یہ اہل تشیع کی اسماعیلی شاخ میں سے ایک فرقہ ہے۔ اس کے دنیا بھر میں دس سے بیس لاکھ کے قریب ماننے والے ہیں۔ حالیہ سرویز سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ کم از کم اسی فی صد بوہرا لڑکیوں کا مذہبی بنیادوں کی وجہ سے ختنہ کیا جاتا ہے۔

داؤدی بوہرا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایکٹوسٹ عارفہ جوہری کا کہنا ہے کہ ناانصافی اور خطرناک روایات کی مخالفت اس لیے کرنی چاہیے کیوں کہ وہ غلط ہیں اور اس میں یہ دیکھنا نہیں چاہیے کہ اس سے کتنے لوگوں کو فرق پڑتا ہے۔

عارفہ نے عورتوں کے ختنے سے متعلق ایک ایڈووکیسی گروپ بنایا ہے جس کا نام 'ساہیو' ہے۔ ان کے بقول اگرچہ ان کی تعداد کم ہے، مگر اس روایت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

زیادہ تر پڑھی لکھی اور بااثر داؤدی بوہرا کمیونٹی کا اکثر حصہ بھارت کی ریاست گجرات میں رہائش پذیر ہے جب کہ پاکستان، یمن، مشرقی افریقہ، مشرقِ وسطیٰ، آسٹریلیا اور شمالی امریکہ میں ان کی چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق عورتوں کے ختنہ کرنے کی روایت کا کوئی طبی فائدہ نہیں ہے اور یہ لڑکیوں اور خواتین کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 23 کروڑ سے زائد خواتین اور لڑکیاں ایسی ہیں جن کی ختنہ کی گئی اور وہ اب بھی حیات ہیں۔ آٹھ برس قبل جاری کیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق اس تعداد میں تین کروڑ لڑکیوں کا اضافہ ہوا ہے۔

افریقہ میں 14 کروڑ چالیس لاکھ لڑکیوں کا ختنہ ہو چکا ہے جب کہ ایشیا میں یہ تعداد آٹھ کروڑ ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں یہ تعداد 60 لاکھ کے قریب ہے۔

'بھارت کو بھی فہرست میں شامل کرنا چاہیے تھا'

بین الاقوامی انسانی حقوق کی وکیل شیلبی قواسٹ کا کہنا ہے کہ خواتین کے ختنہ سے متعلق یونیسیف کی رپورٹ نامکمل ہے اور بھارت کو اس فہرست میں شامل کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے 92 ممالک میں اس روایت پر عمل کیا جاتا ہے اور جہاں اس پر عمل ہوتا ہے، ایسے ممالک کو نہ دیکھا گیا تو 2030 تک اس روایت کا خاتمہ ممکن نہیں۔

داؤدی بوہرا کمیونٹی کی روایت میں لڑکیوں کی کلیٹورس کا سر کاٹ دیا جاتا ہے۔ وہ اسے اعضا کاٹنے سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ محض ختنہ تصور کرتے ہیں۔ اگرچہ اکثر مسلمان علما اس روایت کی حمایت نہیں کرتے لیکن داؤدی بوہرا اسے مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل تک بوہرا کمیونٹی کے باہر اس روایت سے متعلق عوامی طور پر علم نہیں تھا۔ لیکن 2011 میں ایک آن لائن کیمپئن میں اس روایت سے متاثر ہونے والی خواتین نے اس سے متعلق شعور اجاگر کیا اور اپنے جسمانی اور نفسیاتی درد سے متعلق لوگوں کو بتایا۔

آسٹریلیا اور امریکہ میں عدالتوں میں کیسز ہونے کی وجہ سے باہر رہنے والی کمیونٹی میں اس کے عام ہونے سے متعلق عوامی طور پر پتا چلا۔

آسٹریلیا میں سن 2016 میں داؤدی بوہرا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو عورتوں کے ختنہ پر پابندی کے باوجود ایسا عمل کرنے پر 15 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہی نہیں 2017 میں اسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چار ارکان کو چھوٹی بچیوں کے ختنہ کرنے پر گرفتار کیا گیا جن میں دو ڈاکٹر بھی شامل تھے۔

بعد ازاں ایک وفاقی جج نے کیس غیر آئینی قرار دے کر خارج کر دیا تھا۔ لیکن اس سے بوہرا کمیونٹی میں اس روایت کے عام ہونے پر روشنی پڑتی ہے۔

دوسری جانب بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنان خواتین کے ختنہ کے معاملے پر حرکت میں آ گئے ہیں۔

عارفہ جوہری کی تنظیم کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق بھارت کی ریاست کیرالہ کی ایک چھوٹی کمیونٹی میں خواتین کے ختنہ کی روایت موجود ہے۔

اس سے قبل فیمیل جینیٹل میٹیلیشن کی روایت کا تعلق زیادہ تر افریقہ سے جوڑا جاتا تھا۔ لیکن اب حال ہی میں بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک میں اس روایت کی موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ یہ روایت عالمی سطح پر موجود ہے۔

عارفہ جوہری اس روایت کا شکار ہیں۔ بہت سی دوسری داؤدی بوہرا لڑکیوں کی طرح عارفہ محض سات برس کی تھیں جب ان کے ختنے کیے گئے۔

ان کے مطابق انہیں اس کے بہت زیادہ جسمانی نقصانات کا سامنا نہیں پڑا اور وہ اس سلسلے میں خوش قسمت تھیں۔ بعض اوقات اس روایت کے جسمانی اثرات بلوغت تک دیکھے گئے ہیں۔

عارفہ کے بقول جس بات نے انہیں بعد میں متاثر کیا، وہ اس بات کا احساس تھا کہ ان کے ساتھ کیا کیا گیا۔ ’’آپ کا چھوٹی سی عمر میں ختنہ کیا جاتا ہے، تو آپ یہ کبھی جان نہیں سکتے ہیں آپ کے جسم کی اصل ساخت کیا تھی، کتنا کاٹ لیا گیا، اور اس سے آپ کے جنسی تجربات پر کتنا اثر پڑا ہے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ اس روایت کے ان کی کمیونٹی میں حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ بہت کم حصہ عضو کا کاٹتے ہیں اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے جنسی تجربہ کم نہیں ہوتا، بلکہ بہتر ہوتا ہے۔ لیکن عارفہ کا کہنا ہے کہ ان سب کے پاس اس بات کے تعین کی کوئی کسوٹی نہیں ہے۔ اور وہ اس وجہ سے مزید بے چین ہوتی ہیں۔

اس مدعے کی وجہ سے بوہرا کمیونٹی میں بھی اختلافات بڑھے ہیں۔ لیکن کمیونٹی کے روحانی رہنما سیدنا مفضل سیف الدین نے اس روایت کے خاتمے کی مخالفت کی ہے۔

انہوں نے 2016 میں ممبئی میں ایک خطبے میں کہا تھا کہ لوگ جو بھی کہیں، کمیونٹی کو اس سلسلے میں اپنا مؤقف بدلنا نہیں چاہیے اور اس روایت پر عمل ہر صورت ہونا چاہیے۔

بھارتی حکومت بھی اس سلسلے میں اقدامات اٹھانے میں سست روی کا شکار ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں بھارتی سفارت خانے نے اس خبر کے شائع ہونے تک تبصرے کی درخواست پر کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے۔

انسانی حقوق کی کارکن اور محقق لکشمی آننت رائین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکام نے پہلے خواتین کے ختنہ کی روایت کے مکمل خاتمے کی تجویز دی، لیکن پھر اس کی موجودگی سے ہی مکر گئے۔

بھارتی سپریم کورٹ میں 2017 میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اس روایت پر پابندی سے بوہرا کمیونٹی کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔

اس پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ روایت غیر منصفانہ ہے اور عورتوں اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

دوسری جانب بوہرا رہنما اور بوہرا عورتوں کے ایک گروپ نے اس روایت کی حمایت کی ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم مذہبی روایت ہے اور بھارت کا آئین اس کی ضمانت دیتا ہے۔

سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں اس روایت کے آئینی ہونے کا جائزہ لینے کے لیے دو پینل تشکیل دیے تھے۔ لیکن اس سلسلے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور اب تک یہ کیس زیرِ التوا ہے۔

لکشمی کا کہنا ہے کہ فیمیل جینیٹل میٹیلیشن پر کوئی فیصلہ نہ آنا، سیاسی کمزوری کی نشانی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں عورتوں کے خلاف ہونے والے دیگر مظالم کی طرح عورتوں کا ختنہ بھی جاری ہے اور حکومت اس پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG